تخلیق کا مقصد ایک ایسا بنیادی اور فلسفیانہ سوال ہے جو ہمیشہ سے انسان کی سوچ کا مرکز رہا
ہے-
انسانی ذہانت، علاماتِ تخلیق دیکھنے کے بعد یہ نتیجہ نکالتی ہے، کہ اس قدرتی شاہکار کے پیچھے یقینا کسی بڑی ہستی کا وجود ہے ۔ اس کے بعد انسان پرلازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا مقصدِ حیات
سمجھے اور وہ کام کرے جو اس کے خالقِ حقیقی کو مطلوب ہیں-
تاہم ہمیشہ سے ایک قلیل تعداد میں لوگ اس نظریے کے حامی رہے ہیں، کہ اس پیچیدہ کائنات کی
تخلیق اور انسانی زندگی کا وجود محض ایک اتفاق ہے-
رہے وہ لوگ جو یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ نے آخر انسان کو کیوں بنایا؟ تو اسکا جواب
ان لا تعداد نشانیوں میں موجود ہے جو ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئ ہیں- مثلاً سمندروں کی گہرائ
سے لےکر دریاؤں میں؛ وسیع اور لا محدود کائنات میں؛ ریت کے باریک ذروں سے لیکر آسمان پر چمکتے دمکتے ستاروں میں- لیکن انسان اپنی محدود سوچ کی وجہ سےاس بات کو مکمل طور
پر سمجھنے سے قاصر ہے کہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد ہے کیا –
آخر انسان اپنے وجود کا مقصد کسطرح جان سکتا ہے؟ جبکہ اب تک وہ یہ بھی نہیں سمجھ پایا کہ
اسکا دماغ کس کس طرح کام سر انجام دے سکتا ہے- چنانچہ جن سوالوں کا جواب انسان اپنی عقل سے نہیں دے سکتا، وہاں یہ کام الہامی کتب سر انجام دیتی ہیں- انسان کو ہمیشہ سے خدائ رہنمائ
کی ضرورت رہی ہے، جو کہ پیغمبروں کے ذریعے لوگوں تک پہنچی تاکہ انسان اپنا مقصدِ حیات جان سکے-
اسکے باوجود، یہودی اور عیسائ الہامی کتب کی تعلیمات میں ہم آ ہنگی نہ ہونے کی وجہ سے،
ایک حقیقت کے متلاشی انسان کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل دیتی ہیں-
اس کے علاوہ ایک اہم سوال کے بارے میں یہ کتب خاموش ہیں، کہ انسان کا مقصدِ تخلیق کیا ہے؟!
بنیادی طور پر ان کتب کا اندازِ بیاں واضح نہیں بلکہ علا ماتی ہے- عیسائ عقیدے کےمطابق دیوتا اوتار انسان کی نجات کے لئے اس دنیا میں صرف سختیاں جھیلنے آۓ، جو کہ ایک مسخ شدہ عقیدہ ہے اور اعلی ترین اللہ ﷻ کے انصاف کے منافی ہے۔ اس عقیدہ کے تحت لوگ حضرت عیسیٰؑ
کوبطورِ خدا تسلیم کرتے ہیں، اور ان کی مقدس قربانی کو انسانیت کی راہِ نجات کا واحد رستہ
سمجھتے ہیں۔
غیر ابراہیمی مذاہب آج بھی’ پینتھسٹ’ یعنی بہت سے خداؤں کے عقیدہ پر عمل کرتے ہیں یا وہ
پولیتھسٹ ہیں یعنی وہ بہت سے خداؤں یا خدا کے اوتار پر یقین رکھتے ہیں۔- مگر یہ مذاہب ایسے
عقا ئد کو فروغ دیتے ہیں جن میں ایک ذات کو دوسری ذات پر برتری حاصل ہےاور رہبانیت کو
بھی فروغ دیتے ہیں- یہ صحیفے بھی تخلیق کے مقاصد کے بارے میں شک و شبہات کا شکارہیں-
اللہ ﷻ نہ تو شکوک شبہات پیدا کرتا ہے اور نہ ہی انسان کے لیے کوئ مشکل چاہتا ہے-
نتیجتاً، جب الّٰلہ ﷻ نے اپنی آخری وحی بھیجی، تو اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ پیغام رہتی
دنیا تک محفوظ رہے – اس آخری الہامی کتاب یعنی قرآن میں الّٰلہ ﷻ نے انسان کی تخلیق کا مقصد
واضح کردیا، جس کی مزید وضاحت الّٰلہ ﷻ کے آخری نبی ﷺ نے کر ڈالی-